پاکستان کے سابق وزیر برائے سرمایہ کاری محمد اظفر احسن کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اپنی موجودہ سرمایہ کاری کو بہتر بنانے کو ترجیح دینی چاہیے، اور ایک ایسی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے جس میں 80 فیصد توجہ موجودہ سرمایہ کاروں کو فروغ دینے پر مرکوز ہو۔
، نہ کہ صرف نئی سرمایہ کاری کو متوجہ کرنے پر۔ اظفر احسن نے ان خیالات کا اظہار انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز اسلام آباد (ISSI) کے تحت چین پاکستان اسٹڈی سینٹر (CPSC) میں منعقدہ خصوصی گفتگو کے دوران کیا۔ اس گفتگو کا موضوع “پاکستان میں سرمایہ کاری کا منظرنامہ: چیلنجز، مواقع اور آگے کا راستہ” تھا۔ انہوں نے زور دیا کہ پائیدار اقتصادی ترقی اور استحکام صرف وسائل کو بہتر طور پر استعمال کرنے، استعداد بڑھانے اور سرمایہ کاروں کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنے سے ہی ممکن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم اپنی توجہ کا 80 فیصد حصہ موجودہ سرمایہ کاری پر مرکوز کریں گے تو غیر ملکی سرمایہ کاری خود بخود آئے گی۔
اظفر احسن نے پاکستان کی سرمایہ کاری کی صورتحال کا موازنہ اپنے علاقائی ہمسایہ ممالک سے کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے پچھلے 25 سالوں میں 49 ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری کی ہے، جو کہ سالانہ اوسطاً 2 ارب ڈالر بنتی ہے۔ اس کے برعکس، چھوٹے افریقی ممالک سالانہ 3 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کرتے ہیں، بنگلہ دیش 3.5 ارب ڈالر اور بھارت 50 ارب ڈالر سالانہ حاصل کر رہا ہے۔ اظفر احسن نے کہا کہ”یہ فرق پاکستان کی مسابقت کو بہتر بنانے کے لیے ایک مربوط قومی حکمت عملی اور اصلاحات کی ضرورت کی عکاسی کرتا ہے،”
انہوں نے پاکستان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی پر بھی تشویش کا اظہار کیا، جو 2047 تک 400 ملین تک پہنچنے کی توقع ہے۔ “پاکستان آج دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، اور بغیر کسی حکمت عملی کے تعلیم، صحت، اور آبادی کے مسائل حل کرنے کے لیے، ملک کی ترقی کے امکانات تاریک ہی رہیں گے،۔
اظفر احسن نے پالیسیوں کے تسلسل اور طویل مدتی منصوبہ بندی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے بھارت کے آئی ٹی سیکٹر کی مثال دی، جو کہ سالانہ 200 ارب ڈالر پیدا کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مضبوط تعلیمی نظام، مستقل پالیسیوں، اور حکومتی حکمت عملیوں کے ذریعے پاکستان بھی ایسی کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔
انہوں نے اس بات کی تجویز دی کہ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ‘چارٹر آف بزنس’ کا قیام ضروری ہے، جو کہ پارلیمنٹ اور قومی سلامتی کونسل کی منظوری سے ایک جامع اقتصادی حکمت عملی ہو، تاکہ حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود پالیسیوں میں تسلسل برقرار رکھا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا، “ہمیں ایسی پالیسیوں کی ضرورت ہے جو حکومتوں کی تبدیلی سے متاثر نہ ہوں۔
اظفر احسن نے دیگر کامیاب ممالک کی مثالیں دیتے ہوئے سعودی عرب اور ازبکستان میں فراہم کی جانے والی مضبوط سرمایہ کاری کے ماحول کی تعریف کی، اور پاکستان پر زور دیا کہ وہ ان ماڈلز کو اپنائے۔
انہوں نے چین کے ساتھ قریبی تعاون پر بھی زور دیا، خاص طور پر ٹیکنالوجی کے تبادلے کے حوالے سے، اور کہا کہ پاکستان کی نوجوان آبادی چین کی بڑھتی ہوئی عمر رسیدہ آبادی کے لیے ایک تکمیل ہو سکتی ہے۔ انہوں نے پاکستان کے سرکاری اور نجی شعبوں میں استعداد سازی کی اہمیت پر زور دیا اور وزارتوں میں اصلاحات کی ضرورت پر روشنی ڈالی تاکہ مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے ایک زیادہ سازگار ماحول پیدا کیا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا، “اگر مقامی سرمایہ کاری کے لیے ماحول بہتر ہو جائے تو غیر ملکی سرمایہ کاری خود بخود آ جائے گی۔۔
اظفر احسن نے ملک میں طویل مدتی منصوبہ بندی کے فقدان، بار بار کی قیادت کی تبدیلی، اور سیاسی عدم استحکام کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جو ملک کی ترقی میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ انہوں نے قومی سطح پر مکالمے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ سیاسی تقسیم کو ختم کیا جا سکے اور ایک مشترکہ قومی وژن کے پیچھے یکجہتی پیدا کی جا سکے۔ انہوں نے پاکستانی تارکین وطن کو شامل کرنے کی بھی ضرورت پر زور دیا، جنہیں اگر صحیح ماحول فراہم کیا جائے تو وہ ملک کی معیشت کو بڑے پیمانے پر فروغ دے سکتے ہیں۔ انہوں نے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ کی مثال دی، جو اگر سنجیدگی سے لاگو کیا جائے تو کامیاب ہو سکتا ہے۔ اظفر احسن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے غیر ملکی ذخائر آج 8.8 ارب ڈالر پر ہیں، اور اگر ہم اپنی تارکین وطن کی صلاحیتوں کا صحیح استعمال کریں تو سرمایہ کاری کا منظرنامہ بدل سکتا ہے۔
سیاسی استحکام کے حوالے سے انہوں نے قومی مکالمے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت پر زور دیا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ سیاسی پولرائزیشن آج ملک کو درپیش سب سے بڑا چیلنج ہے اور قوم کے مفادات کو یکجا کرنے کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا، “محمد بن سلمان نے پاکستان کے چھ مختلف وزرائے اعظم کے ساتھ کام کیا ہے – یہ سیاسی عدم استحکام ختم ہونا چاہیے۔”
انہوں نے صحت، تعلیم، میڈیا، سیاحت، غذائی تحفظ، ٹیکنالوجی اور مالیات جیسے اہم شعبوں میں قومی سطح کی حکمت عملی کی عدم موجودگی پر بھی افسوس کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا، “پاکستان ایک شناختی بحران کا شکار ہے۔ کیا ہم جمہوریت ہیں، بادشاہت، آمریت یا صدارتی حکومت؟ کوئی مشترکہ وژن نہیں ہے۔
اظفر احسن نے ویتنام، مشرق وسطیٰ، اور افریقہ جیسے ممالک سے سیکھنے کی ضرورت پر زور دیا، جہاں پالیسیوں کے تسلسل نے ان کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ “اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (SIFC) ایک اچھا تصور ہے، لیکن یہ پائیدار نہیں ہے۔ بورڈ آف انویسٹمنٹ (BOI) کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے،” انہوں نے خبردار کیا، اور ایک 25 سالہ قومی حکمت عملی کی وکالت کی جو ملک کی ترقی کی رہنمائی کرے۔
اظفر احسن نے اپنی اختتامی کلمات میں قوم کی تعمیر کی اہمیت اور میڈیا میں مثبت خبروں کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا، خاص طور پر تعلیم، کھیل اور ٹیکنالوجی سے متعلق کہانیوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ب سابق وزیر مملکت اظفر احسن نے کہا کہ سیاسی پولرائزیشن ہمارا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اگر ہم اس منفی رجحان کو نہ روک سکے تو یہ صرف ہمارے دشمنوں کے ان مقاصد کی تکمیل کرے گا جن کا مقصد پاکستان کی ترقی کو روکنا ہے