حکومت نے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسز میں اضافے کے ساتھ سالانہ ٹیکس ہدف 13 ہزار ارب رکھا ہے جو ماہانہ بنیادوں پر 1 ہزار ارب سے زائد بنتا ہے۔
ایف بی آر کے ترجمان بختیار احمد کا بول نیوز کے پروگرام بیوپار میں گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ فی الحال تنخواہ دار طبقے کو ریلیف ملنے کا امکان نہیں کیونکہ کوئی بھی فیصلہ حکومت کی جانب سے کیا جاتا ہے اور ایف بی آر کو اس حوالے سے اب تک کوئی ہدایت موصول نہیں ہوئیں۔
سالانہ 13 ہزار ارب ٹیکس ہدف حاصل کرنے پر انہوں نے کہا کہ پہلے مہینے میں کچھ بھی حاصل نہیں کیا جاتا، پہلے ماہ کے سیلز ٹیکس کے ریٹرن 15 اگست تک آجائیں گے جس میں ریونیو بڑھنے کا امکان ہے اور اسی طرح پہلے کوارٹر میں بھی اس میں اضافہ ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم ہر سال اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں اور انشااللہ یہ ہدف بھی ہم دیگر ہدف کی طرح حاصل کرلیں گے۔
چیئرمین ایف بی آر کے قبل از وقت استعفیٰ لینے کے فیصلے پر ترجمان نے کہا کہ اس میں کوئی سیاسی پریشر نہیں، یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہے۔ فروری میں ان کی مدت پوری ہونے والی تھی تاہم انہوں نے قبل از وقت مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔
تقسیم کار کمپنیاں اوور بلنگ میں ملوث
ملک میں اس وقت پاور سیکٹر بہت ہی مشکلات کا شکار ہے جس کا براہ راست اثر ایک عام آدمی پر پڑ رہا ہے جو اس وقت مہنگی بجلی خریدنے پر مجبور ہے جب کہ ساتھ ہی اوور بلنگ کا بھی سامنا ہے۔
نیپرا کی جانب ایک رپورٹ کے ذریعے بہت سی کمپنیز کے نام سامنے آئے ہیں جو اوور بلنگ کرتے ہیں جب کہ ان ناموں میں کے الیکٹرک کا نام بھی شامل ہے جو اس وقت اوور بلنگ کررہی ہے۔
پروگرام بیوپار میں اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ماہر توانائی ڈاکٹر شعیب احمد نے کہا اوور بلنگ کے پیچھے پابچ فیکٹر ملوث ہیں۔
ماہر توانائی نے بتایا کہ ان تقسیم کار کمپنیوں میں 1 لاکھ 90 ہزار ملازمین ہیں اور انہیں 400 ملین یونٹ سالانہ فری ملتے ہیں جب کہ اس کی مالیت 25 سے 30 ارب روپے بنتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ تقسیم کار کمپنیاں عام آدمی پر اوور بلنگ کرکے اپنی فیس سیونگ کررہے ہیں کیونکہ یہ اپنے جرم بھی ہمارے کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔
ڈاکٹر شعیب احمد نے مزید بتایا کہ کئی حکومتی اداروں کے بھی واجب الادا بل ہیں جو کہ ایک عام آدمی ہی بھر رہا ہے۔