متعلقہ

کیپسٹی چارجز کے خلاف تاجروں کی ہڑتال، مسئلے کا حل کیا ہے؟ – پاک لائیو ٹی وی


کیپسٹی چارجزکے خلاف تاجروں کی ہڑتال، مسئلے کا حل کیا ہے؟

کیپسٹی چارجزکے خلاف تاجروں کی ہڑتال، مسئلے کا حل کیا ہے؟

معروف صنعت کارمیاں زاہد حسین چیئرمین نیشنل بزنس گروپ نے بول نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت ہماری تمام انڈسٹری ختم ہوچکی ہیں۔ کیوں کہ انرجی کی قیمتیں ہیں جو ہمارے ہاں ہیں وہ اس خطے میں یا شاید دنیا میں سب سے زیادہ ہوں۔ وزیراعظم نے اعلان کیا تھا اس کے بعد توقع تھی کہ یہ بجلی کی قیمت بارہ، تیرہ سینٹ پرآ جائے گی لیکن اس پربھی ابھی تک عملدرآمد نہیں ہوا۔ اس مسئلے کی جو پرابلم ہے اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بجلی کے شعبے میں بارہ سو ارب روپے کا تو ایک نقصان ہے جس میں لائن لاسز بھی ہیں، بل نان پے منٹ بھی ہے اوربجلی کی چوری بھی شامل ہے۔ یہ 12 سو ارب روپےہم پے کرتے ہیں۔

معروف صنعتکارمیاں زاہد حسین نے کہا کہ اس کےعلاوہ دوہزارارب روپے ہم کیپسٹی چارجزکی مدد میں پے کرتے ہیں جو کہ تقریبا 19 روپے 84 روپے فی یونٹ بنتا ہے، اب 19 روپے 84 روپے ہم ایک پے کررہے ہیں اور جو بجلی چوری، نان پے منٹ اوراس ٹائپ کی جوچیزیں ہیں اس میں بھی تقریبا ہم پانچ یا چھ روپے فی یونٹ ہم پے کررہے ہیں، ہمارے پاس جو بجلی کا بل آ رہا ہے اس میں یہ چوبیس سے پچیس روپے فی یونٹ تو ہم اس مد میں پے کررہے ہیں اورجوایکچوئل چیز دس روپے کی ہے اس کے ہم 35 یا 40 یا 75 روپے ہم پے کررہے ہیں۔

چیئرمین نیشنل بزنس گروپ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگربرتن میں سوراخ ہوتوآپ جو مرضی ڈالتے رہیں، نیچے سے لیک ہوتا چلا جائے گا، بجلی کے شعبے میں اس وقت ڈومیسٹک میں یا کمرشل میں تقریبا 75 روپے فی یونٹ ریٹ جا پہنچا ہے اب اتنا ہیوی ریٹ کون پے کرسکتا ہےنہ کوئی بزنس مین پے کرسکتا ہے نہ کوئی گھریلو خاتون پے کرسکتی ہے نہ کوئی تاجرپے کرسکتا ہے، 25، تیس روپے فی یونٹ کی جو ہم فالتوپے منٹ کررہے ہیں اس کو اگر آپ ریڈیوس کر دیں گے تو آٹومیٹکلی تمام چیزیں ایک سسٹم میں آ جائیں گی ضرورت اس چیزکی ہے، ضرورت اس چیز کی نہیں ہے کہ پبلک کے اوپرآپ بجلی چوری کا بھی لوڈ ڈالتے چلے جائیں اور کیپسٹی پے منٹ کا بھی ڈالتے چلے جائیں۔

معروف صنعت کارنے کہا کہ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ آپ نے جو بجلی کے کارخانے لگا رکھے ہیں وہ کوئی چالیس بیالیس ہزار میگاواٹ کے لگائے ہوئے ہیں، سردیوں میں جو کھپت بارہ ہزار ہے اورگرمیوں میں تقریبا تیس ہزار ہے اس کا آپ ایورج نکالیں تو بیس ہزار ہے، اس کا مطلب ہے بیس ہزاراستعمال میں اور باقی بیس ہزارکی ایکسیس پے منٹ کرنی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اس میں تو کوئی برائی نہیں ہے لیکن اصل ضرورت اس چیزکی ہے جو باقی بیس ہزارضائع ہو رہا ہے اورجو استعمال میں نہیں ہے، اس کا حل نکالا جائے، انڈسٹری کو Facilitate کیا جائے۔ جتنا بھی بجلی کا استعمال ہے زیادہ تر ڈومیسٹک ہے یا کمرشل ہے، اگر ہم انڈسٹری کی پیداواربڑھائیں گے تو بجلی کی ایوریج پرائز کم ہو جائے گی۔

میاں زاہد حسین نے کہا کہ حکومت کی کیپسٹی پے منٹ ہے وہ تو دینی ہی دینی ہے، اس کے بدلے میں آپ بجلی نہیں لے رہے۔ اس کے بدلے میں آپ بجلی لینا شروع کردیں گے تو ایوریج پرائزکم ہو جائے گی۔ یعنی چالیس ہزارآپ کی کیپسٹی ہے اور 20 ہزار آپ استعمال کر رہے ہیں تو باقی بیس ہزاراستعمال میں نہیں ہے لیکن اس کی پے منٹ آپ کررہے ہیں، ضرورت اس چیز کی ہے کہ باقی 20 ہزاربھی استعمال کی جائے اور وہ اس طریقے سے ہوگی کہ آپ انڈسٹری کو پرموٹ کریں گے، اپنی ایکسپورٹ کو پرموٹ کریں گے، اکنامک ایکٹویٹیزکو بڑھائیں گے تو بجلی کی کھپت بڑھے گی اورجو اووورآل کاسٹ ہے وہ آپ کی کم ہو جائے گی اوریہ اس بجلی کا استعمال گھروں میں نہیں، انڈسٹریز میں بڑھائیں گے تاکہ سال کے بارہ مہینے بجلی کا استعمال ایک جیسا رہے۔

بول نیوز کے پروگرام بیوپار میں گفتگو کرتے ہوئے ماہرِمعاشیات چوہدری محمد اکمل نے کہا کہ اس بجلی کی کھپت کو بڑھانا مسئلے کا حل اس لیے نہیں ہے کہ جو ریٹ اس وقت بجلی کے رکھے گئے ہیں جس میں ساری کرپشن کی کاسٹ ہے، ساری کک بیکس، بجلی چوری اس میں شامل ہے اورجو بجلی ضائع ہو رہی ہے ہم تک پہنچتی نہیں ہے، لائنزاور ٹیکنالوجی پرانی ہو چکی ہے اس کی وجہ سے جو بجلی کا ضیاع ہوتا ہے وہ سارا نقصان ہے۔ اس کے بعد کھپت کو بڑھا دینا کیسے بڑھا دینا۔

چوہدری محمد اکمل نے کہا  کہ 80، 90 روپے یونٹ میں کون بجلی خریدے گا اورآگے جو اس سے پراڈکٹ بنائے گا اسے کتنے میں بیچے گا؟ اورکس کو بیچے گا؟ اس سارے Circum trans میں جانا مجھے تو بہت مشکل لگا رہا ہے۔ لوگوں نے تو جو دو پنکھے چلاتے تھے انھوں نے ایک کردیا ہے۔ جو اے سی چلا رہے تھے وہ پنکھے پرآ گئے جو پنکھے چلا رہے تھے وہ ہاتھ والے پنکھوں پر آگئے۔ یہ تو ہماری پوزیشن چل رہی ہے۔ اس میں یہ توقع رکھی جائے کہ بڑھائیں گے توبڑھ نہیں سکتا۔

ماہرِ معاشیات نے کہا کہ بجلی کے محکمے میں جو کرپشن ہے اس میں کیپسٹی چارجز کے معاملے پر بارہا اس پر بات کر چکا ہوں کہ کیپسٹی چارجز توہے ہی ہیں اس کےعلاوہ آئی پی پیزسے جو بجلی ڈسٹریبیوٹ ہوتی ہے اورڈسکوزتک پہنچتی ہے وہ چارج وہاں سے ہوتی ہے اس میٹرسے ہوتی جو اس پروڈیوسر نے لگایا ہوا ہے اور وہاں تک پہنچتے پہنچتے جو بجلی ضائع ہوتی ہے اس کا کوئی حساب نہیں ہے۔ اس کی کاسٹ بھی ہم پے کررہے ہیں، ظاہر ہے بجلی جب اتنی مہنگی ہوتی ہے تو چوری ہوتی ہے۔

چوہدری محمد اکمل نے کہا کہ ہمارے کئی ایسےعلاقے ہیں خاص طور پرکچی آبادیاں ہیں یا دیگر جو علاقے ہیں وہاں پر بجلی چوری ہے، اب یہ سمجھیں کہ 20 فیصد بجلی چوری کی کاسٹ ہوگئی، 20 فیصد کیپسٹی چارجز اس میں لگ گئے، 10 فیصد لائن لاسز لگا دیں تو آدھی بجلی تو ویسے ہی آپ کو سستی ہوسکتی ہے۔ اگر ہم ان چیزوں پر قابو پا لیں، ان سب چیزوں پرقابو نہیں پانا ایک چیز کو پکڑا ہوا کہ پروڈکشن بڑھا دیں وغیرہ، ان چیزوں سے کچھ نہیں ہوگا۔ میں اس پلیٹ فارم کے ذریعے چیف آف آرمی اسٹاف سے گزارش کروں گا کہ ایس آئی ایف سی کے پلیٹ فارم سے باقاعدہ Initiative لیا جائے۔ آئی پی پیز کو پورا چیک کیا جائے کہ بجلی کی مد میں غیرضروری لاگت ہے وہ نکالی جائیں۔

رول اوورز کے سوال پرچوہدری اکمل نے کہا کہ 50 فیصد کہا جارہا ہے کہ ہمارے پاس ایکسٹرا بجلی موجود ہے۔ مطلب یہ کہ پاکستان میں جتنی بجلی استعمال ہورہی ہے اتنی ہی ہمیں بجلی جنریٹ کرنا پڑ رہی ہے، مزید جنریٹ کرنے کے لیے ہمیں کتنی انڈسٹریزلگانی پڑے گی، کتنے گھر بنانے پڑیں گے وہ ایک دن میں نہیں ہو سکتا۔

میاں زاہد حسین نے گفتگو میں کہا کہ ہم اپنی انڈسٹری کی کیپسٹی 30 یا 40 فیصد پر استعمال کررہے ہیں۔ انڈسٹری All underutilized ہے۔ چوہدری اکمل نے کہا کہ اس میں بہت سارے دوسرے فیکٹر بھی ہیں لیبر ہے، میٹیریل ہے، اس کی کاسٹ کیا ہیں، ایمپورٹ کا بڑھنا، ہمارے پاس زرمبادلہ کے ذکائر کم ہیں، کوئلہ اور منگوانا پڑ جائے گا ایمپورٹ کا بل تو حکومت نے ہی دینا ہے۔

گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے میاں زاہد حسین نے کہا کہ بجلی کے کارخانے بھی آدھے چلائیں اورپھرآپ کہیں گے کہ ان کے پیسے دینے ہیں۔ آپ اپنے دوسرے کارخانے ہیں وہ بھی 30، 40 فیصد میں چلائیں تو ان کی بھی کاسٹ دینی ہے، جب آپ ہر جگہ underutilized ہوں گے توپھر چیزیں تو اسی طرح خراب ہوں گی۔ صرف کرنا یہ ہے کہ جو بجلی فالتو ہے وہ سستے داموں آپ انڈسٹری کو دیں، انڈسٹریاں اسے چلانا شروع کردیں گی، انٹرنیشنل مارکیٹ میں اسپیس بن جائے گی، اس لیے کہ ان کی کاسٹ ٹھیک ہو جائے گی۔ اس وقت ان کی کاسٹ زیادہ آ رہی ہے، ان کی کاسٹ بھی ٹھیک ہو جائے گی، ایکسپورٹ بڑھ جائے گی۔ صرف یہی کردیں کہ انڈسٹری کو 9 سینٹ پربجلی دے دیں آپ کی چھ ارب ڈالر کی ایکسپورٹ فوری بڑھ سکتی ہے۔