متعلقہ

جب تک بجلی سستی نہیں ہوگی ڈیمانڈ نہیں بڑھے گی، چیئرمین اپٹما – پاک لائیو ٹی وی


جب تک بجلی سستی نہیں ہوگی ڈیمانڈ نہیں بڑھے گی، چیئرمین اپٹما

چیئرمین اپٹما آصف انعام نے کہا ہے کہ جب تک بجلی سستی نہیں ہوگی توڈیمانڈ نہیں بڑھےگی، پیداواری صلاحیت کا ہمیں فائدہ نہیں ہورہا ہے۔

بول نیوزکے پروگرام بیوپارمیں بجلی کے مسائل پرگفتگو کرتے ہوئے چیئرمین اپنٹما آصف انعام نے کہا جب تک بجلی سستی نہیں ہوگی اس کی ڈیمانڈ نہیں بڑھے گی اور جب تک ڈیمانڈ نہیں بڑھے گی یہ مسائل ہوں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا سسٹم ہی بائیس ہزارکا ہے اوراس میں 42 ہزارلگ گئے ہیں اوراس کی کپیسٹی پےمنٹ ہو رہی ہے اوریہ دن بہ دن مسئلہ خراب ہوتا جا رہا ہے۔ اس کا صرف یہی حل ہے کہ جو اوورکپیسٹی لگی ہے اس سارے کو ختم کیا جائے۔

آصف انعام نے کہا کہ سرمایہ کاری کا فائدہ کچھ بھی نہیں ہوگا، جبھی تو یہ ضائع ہورہا ہے، بجائے انویسمنٹ کے یہ Liability create ہورہی ہے، یہ سرمایہ کاری نہیں رہی۔ یہ investment کیسا ہے جس کی کوئی پروڈکٹ ہی نہیں ہو، سرمایہ کاری تو یہ ہے کہ آپ نے سرمایہ لگایا، اس کا کوئی ریٹرن آئے۔ جب ایک پلانٹ چل نہیں رہا تو یہ کوئی انویسمنٹ نہیں ہے۔ وہ توLiability create  ہورہی ہے۔ وہ Consumption کا Liability create ہوگیا۔

یہ خبر بھی پڑھیں؛ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کاروبار کے اختتام پر اضافہ ریکارڈ

چیئرمین اپٹما نے کہا کہ ایک مؤقف اختیار کیا گیا کہ ہم ان کو اتنی ہیوی ریٹرن دے رہے ہیں ان کے بدلے پاکستان میں سرمایہ کارآئیں گے جو پاکستان میں نوسے دس فیصد گروتھ کریں گےجو ٹیکس بھی دے رہے ہوں گے۔ 28 محکموں کو بھی نمٹیں گے تو دونوں متضاد باتیں ہیں۔ دونوں میں سے کوئی ایک چیز ٹھیک ہو سکتی ہے یا تو سرمایہ کار پاکستان آئے گا نہیں اور جب کوئی آئے گا نہیں تو ان کو اس قسم کی وحشیانہ ریٹرن دی جائے گی تب جا کر وہ آئے گا اس کا ٹیکس فری اور کسی محکمے سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔

آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کے حوالے سے پروگرام بیوپار میں گفتگو کرتے ہوئے انرجی ایکسپرٹ محمد عارف نے کہا کہ ہم ایسی سچویشن میں کھڑے ہیں جس میں ایک ڈائریکشن میں کام کرنا ممکن نہیں، کچھ ایسے معاہدے جو بین الاقوامی ہیں، مسئلے کی مین کاز ہماری اپنی lake of failure of management ، کارکردگی، مس منیجمنٹ وغیرہ یہ سارے ہمارے اندرونی ایشوز ہیں۔ ہر معاہدے کی کنڈیشن کو ریو کرکے اور اس میں دیکھنا پڑے گا کہ کیا ممکن ہے ٹریف وغیرہ کم کرنے کی، یہ ساری چیزیں اس طرح سے کرنی پڑیں گی holistic approach کے ساتھ۔

اب ہو یہ رہا ہے کہ ایک خیالی عمل بنتا ہے یہ سارے اسی طرف سوچنا شروع کردیتے ہیں۔ مثال کے طور پرجو فوری کام ہے اور ان کے اپنے ہاتھ میں ہے کہ بجلی کی کھپت بڑھائیں تاکہ جو بھی آپ کی اپنی کپیسٹی پےمنٹ ہے پے منٹ کرنے کے باوجودیونٹ کاسٹ کم ہو جائے۔ کھپت تب بڑھے گی جب آپ اس کا ٹیرف جو ہے کم کریں گے۔ فرض کریں ایک آدمی، کمپنی یا ایک انڈسٹری کی کھپت ہزار یونٹ اس پر جو ریٹ لگتا ہے وہ لگائیں، اگر ہزار سے زیادہ استعمال ہے اس پر کپیسٹی چارجزاپلائی نہیں کریں گے۔ فائدہ اس کا یہ ہوگا کہ آپ کی انڈسٹری چل پڑے گی۔

106 آئی پیز میں 52 فیصد حکومتی ملکیت کے حوالے سے سوال کے جواب میں چیئرمین اپٹما نے کہا کہ انھیں کم کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت جو ملکی معیشت ہے اس پر بات ہو سکتی ہے۔ یہ کمپنیاں انٹرنیشنل ہیں تو اس لیے ہم نے فرانزک مانگا ہے۔ دھودھ کا دھودھ پانی کا پانی ہوگا، بین الاقوامی ہیں تو قانون تو ساری دنیا میں ایک ہی ہیں۔ ان کے معاہدے اٹھا کر دیکھ لیں، اس میں جو شرطیں موجود ہیں وہ پڑھ لیں۔ دیکھ لیں یہ خود اس پر کتنے پورے اتریں گے۔

محمدعارف نے کہا کہ جو منصوبے لگائے گئے ہیں اس میں ساری انویسٹمنٹ جنریشن سائیڈ پر لگائی گئی ہے، جہاں پرسرمایہ لگانا چاہیے تھا ٹرانسمیشن کی مدد میں وہاں متوازی نہیں دیکھا گیا جس کی وجہ سے آپ کی بجلی کی جنریشن کمپیسٹی زیادہ ہونے کے باوجود اس کی کھپت وہ نہیں ہو پائی۔ انھوں نے جنریشن سائیڈ پر فوکس کیا، ڈسٹری بیوشن سائیڈ پر فوکس نہیں کیا۔ معاہدوں کو چیلنج بھی کیا جاسکتا ہے۔ ہم ساری چیزوں کو ساتھ لے کر نہیں چلے، ڈسٹری بیوشن اور ٹرانسمیشن سسٹم میں ہم نے سرمایہ نہیں لگایا۔ سارا کا سارا فوکس رہا ہے جنریشن سائیڈ پر۔

چیئرمین اپٹما نے کہا کہ روٹی نہیں ملتی تو کیک کھا لو، کیک نہیں ملتا تو بسکٹ کھا لو، اس قسم کی باتیں سننے کو مل رہی ہیں جو عجیب و غریب ہیں۔ ہم آپ کو بتا رہے ہیں 22ہزار کا سسٹم ہے، 42 ہزار لگ گئے۔ ہم دو بجلی کے پیسے نہیں دے سکتےاس کے بجائے Consumption بڑھا دیں یہ کر دیں وہ کردیں، جو سرمایہ لے کر آ رہے ہیں وہ ویسٹ ہے جو بائیس ہزارمیگاواٹ کے اوپرایک ایک میگاواٹ ہے وہ ویسٹ ہے وہ نالی میں گیا ہے۔ اس کو انویسٹمنٹ کہنا ختم کریں۔ جب ایک ایک چیز استعمال ہی نہیں ہو رہی وی تو ضائع ہے۔ کہا جارہا ہے کہ لینے والے نے خرید لیا، بیچنے والے نے بیچ دیا، انھوں نے یہ نہیں دیکھا انھوں نے وہ نہیں دیکھا اور اب ہم بل کی مد میں بھگت رہے ہیں۔