لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز ‘ کی امپیکٹ آف ٹیکسیشن آن سگریٹ سیکٹر آف پاکستان’ کے عنوان سے جاری کردہ ایک حالیہ تحقیقاتی رپورٹ میں سگریٹ انڈسٹری پر ٹیکس، خصوصاً فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں مجوزہ ترامیم کے حوالے سے سنگین خدشات کا اظہار کیا گیا ہے کیونکہ اس سے حکومت کو محصولات میں اضافے کی بجائے شدید گراوٹ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اس تحقیقاتی رپورٹ کی رونمائی گزشتہ روز مقامی ہوٹل میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران کی گئی جس میں لمز یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر آف اکنامکس ڈاکٹر کاشف ظہیر ملک نے حاضرین کو رپورٹ کے حوالے سے تفصیلات بتائیں۔
رپورٹ میں حکومت کو سفارش کی گئی ہے کہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں بے جا اضافے کی بجائے ٹیکس کے دائرے کو بڑھانا چاہیے اور مزید کئی مصنوعات پر ٹیکس عائد کیا جا نا چاہیے۔ اس سے نہ صرف ٹیکس چوری میں کمی ہو گی بلکہ کاروباروں کیلئے مزید سازگار ماحول میسر ہو سکے گا۔
رپورٹ میں حکومت پر زور دیا گیا کہ آنے والے بجٹ کو کاروبارکیلئے سازگار بنانا نا گزیر ہے کیونکہ اسی کے سر پر معیشت کا پہیہ رواں رہے گا۔
رپورٹ میں ٹیکسوں میں بے پناہ اضافے کے بعد صارفین کی قانونی سگریٹوں سے غیر قانونی سگریٹوں کی جانب منتقلی اور اس کے محرکات کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ زمینی حقائق کا جائزہ لینے کیلئے ایک جامع سروے بھی کیا گیا۔ سروے سے معلوم ہوا کہ ملک بھر میں محض 42فیصد ایسے سگریٹ فروخت ہو رہے ہیں جن پر حکومت پاکستان کو ٹیکس و ڈیوٹیز ادا کی گئی ہیں، تاہم باقی فروخت ہونے والے تمام 58 فیصد سگریٹ یا تو جعلی ہیں، سمگل شدہ ہیں یا مقامی طور پر تیار کیے گئے ایسے سگریٹ ہیں جن پر حکومت پاکستان کو کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا جاتا۔ ملک بھر میں جاری اس غیر قانونی تجارت سے نہ صرف حکومتی عملداری پر سنگین سوالات اٹھ رہے ہیں بلکہ اس سے ملکی خزانے کو سالانہ 300 ارب روپے کا نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سگریٹ مارکیٹ کا سالانہ حجم 81ارب سگریٹ ہے، تاہم آدھے سے بھی کہیں زیادہ ایسے سگریٹ مارکیٹ میں فروخت کیلئے دستیاب ہیں جو غیر قانونی ہیں۔ ان میں سے کئی سگریٹ ایسے بھی ہیں جو حکومت پاکستان کی مقرر کردہ کم از کم قیمت سے بھی کم پر فروخت کیے جا رہے ہیں۔اس بڑھتی ہوئی غیر قانونی تجارت کے رجحان میں تیزی اس وقت دیکھنے میں آئی جب حکومت نے گزشتہ سال سگریٹ انڈسٹری پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں تقریباً200فیصد کا یکمشت بڑا اضافہ کر دیا تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ٹیکسوں میں یہ اضافہ تمباکو سیکٹر سے ٹیکس اکٹھا کرنے کی غرض سے لگایا گیا تھا، تاہم اس کے اثرات نہایت شدید تھے، اور اس سے قانونی سیکٹر شدید متاثر ہوا۔ٹیکس میں اس بڑے اضافے کی وجہ سے زیادہ قیمت والے قانونی سگریٹ برانڈزمزید مہنگے ہو گئے جبکہ دوسری جانب مارکیٹوں میں سستے متبادل سگریٹوں کی غیر متوازن طور پر بھر مار ہونا شروع ہوئی جس سے قانونی سیکٹر مزید متاثر ہوا۔
مالی سال 2023میں دو بڑی کمپنیوں کے علاؤہ باقی ماندہ تمباکو کمپنیوں نے مجموعی طور پرقومی خزانے میں مختلف ٹیکسوں اور ڈیوٹیز کی مد میں صرف 3ارب روپے جمع کروائے۔
ڈاکٹر کاشف کا کہنا تھا کہ حکومت نے غیر قانونی سگریٹوں کی روک تھام کیلئے کئی اقدامات اٹھائے ہیں تاکہ متعدد کمپنیوں اور غیر قانونی سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے، تاہم ان اقدامات کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہ آ سکے ہیں۔
ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کی افادیت پر بات کرتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا کہ متعلقہ اداروں کی بد انتظامی اور حکومت کی جانب سے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کی مکمل عملداری میں ناکامی موجودہ گھمبیر صورت حال کی بنیادی وجوہات ہیں۔اس سے نہ صرف حکومتی محصولات میں متواتر کمی ہوتی جا رہی ہے بلکہ مارکیٹوں میں غیر قانونی سگریٹوں کی بھر مار ہو رہی ہے۔ بڑے پیداواری سیکٹر خصوصاً سگریٹ انڈسٹری کی پیداوار میں گزشتہ سال کے دوران کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
رپورٹ کی رونمائی کے بعد گول میز مباحثے کا اہتمام کیا گیا جس میں رپورٹ کی روشنی میں حکومت کیلئے سفارشات مرتب کی گئیں۔