متعلقہ

گاڑی خریدنے کے خواہشمندوں کیلئے بڑی خبر – پاک لائیو ٹی وی


گاڑی خریدنے کے خواہشمندوں کیلئے بڑی خبر

گاڑی خریدنے کے خواہشمندوں کیلئے بڑی خبر آگئی ہے۔

پاکستان میں مقامی سطح پر گاڑیاں بنانے والی صنعت نے بجٹ سے قبل وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ  بیرون ملک خاص طورپر جاپان سے منگوائی جانے والی پرانی گاڑیوں کی درآمد پر مکمل پابندی عائد کی جائے تاکہ امپورٹڈ گاڑیوں کی بلیک مارکیٹ سے پاکستان کی آٹوموبائل صنعت اور ملکی معیشت کو پہنچنے والے اربوں روپے کے نقصان سے بچایا جاسکے۔

صنعت نے مطالبہ کیا ہے کہ نئے بجٹ میں 2000 کلومیٹر چلی ہوئی غیر ملکی گاڑیوں پر پابندی لگائی جائے۔ بیرون ملک سے مستقل سکونت کے لئے واپس آنے والے پاکستانیوں کو امپورٹڈ گاڑیاں اپنے ہمراہ لانے کی سہولت پر نظر ثانی کی جائے کیونکہ اس سہولت کا ناجائز استعمال کرکے ملکی خزانے اور آٹوموبائل انڈسٹری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔

 پرانی گاڑیاں امپورٹ کرنے کا دھندہ کرنے والا مافیا بیرون ملک پاکستانیوں سے 100 ڈالر میں اُن کا پاسپورٹ خرید لیتا ہے جسے بڑی مقدار میں گاڑیاں پاکستان لانے کے لئے استعمال کیاجاتا ہے۔ اس ضمن میں نظام کے اندر سے کالی بھیڑیں اس مافیا کا ساتھ دیتی ہیں۔

 وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کو آٹو موبائل انڈسٹری کو درپیش سنگین مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جس سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔

نمائندوں کا مؤقف ہے کہ پاکستانی معیشت کی میوفیکچرنگ کی بنیاد کمزور ہے۔ 65 سے 71 فیصد عالمی برانڈز اس وقت پاکستان کے اندر ہی اسمبل ہو رہے ہیں جسے 2023 کی پہلی سہہ ماہی میں استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دینے کے حکومتی فیصلے سے بہت نقصان ہوا ہے اور مقامی سطح پر تیار شدہ گاڑیوں کی مانگ میں کمی واقع ہوئی ہے۔

رواں سال کے پہلے 6 ماہ میں گاڑیوں کی امپورٹ میں 684 فیصد اضافہ ہوا ہے، جولائی تا دسمبر 2023 میں 16 ہزار 500 گاڑیاں بیرون ملک سے امپورٹ ہوئیں۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2022-23 میں2100استعمال شدہ گاڑیاں پاکستان میں درآمد ہوئیں۔

پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹو موٹیو پارٹس اینڈ ایکسیسوریز مینوفیکچررز کے چئیرمین عبدالرحمان عزیز کے مطابق وفاقی بجٹ 2023-24 میں ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنے کی وجہ سے یہ امپورٹ ہوئی جس کے تحت1800 سی سی تک کی استعمال شدہ گاڑیوں سے ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کردی گئی تھی۔

 عبدالرحمان عزیز کے مطابق اس حکومتی فیصلے سے ہونے والے نقصان کا تخمینہ 36 ارب روپے ہے۔ جبکہ آٹو موٹیو انڈسٹری بند ہونے کے کنارے پہنچ گئی ہے۔ چین اور بھارت کے پالیسی سازوں نے اس حوالے سے اپنی قومی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ لگایا ہے، ہمیں بھی اسی انداز میں اپنی مقامی آٹو انڈسٹری کو تحفظ دینے کی ضرورت ہے۔

 انہوں نے کہا کہ 10 لاکھ سے زائد لوگ اس شعبے میں مزدوری کر کے اپنا رزق کما رہے ہیں۔ معاشی حالات کی وجہ سے پہلے ہی دیگر کی طرح مقامی گاڑیاں بنانے کی صنعت دباؤ کا شکار ہے۔ امپورٹڈ گاڑیوں کی ادائیگی غیر ملکی کرنسی میں ہونے کی وجہ سے پاکستان کے فارن ریزروز پر بھی بوجھ بڑھتا ہے۔

دوسری جانب سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین نے اس پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ صنعت پر درآمدی پابندیاں لگانے کے بجائے ‘سی کے ڈی’ امپورٹ پر ڈیوٹیز میں اضافہ اچھی پالیسی ہے۔