متعلقہ

انٹرنیٹ سلو ہونے سے بابوؤں کو فرق نہیں پڑتا نقصان نوجوانوں کا ہوگا، بلاول بھٹو – پاک لائیو ٹی وی



انٹرنیٹ سلو ہونے سے بابوؤں کو فرق نہیں پڑتا نقصان نوجوانوں کا ہوگا، بلاول بھٹو

جامشورو: چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے سندھ یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انٹرنیٹ کے سلو ہونے سے بابوؤں کو فرق نہیں پڑتا بلکہ نقصان نوجوانوں کا ہوگا۔

چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے سندھ یونیورسٹی میں خطاب کیا جس دوران ان کا کہنا تھا کہ تعلیم آپ کے والدین کی جانب سے ایک بڑا تحفہ ہے۔ جائیداد، پیسہ اور دیگر وسائل تعلیم کے سامنے کچھ نہیں جب کہ علم ایسا ہتھیار ہے جو آپ سےچھینا نہیں جاسکتا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ آپ وادی مہران کی قدیم ثقافت سے تعلق رکھتے ہیں، نوجوان ملک کی اکثریت اور مستقبل ہیں۔ جب مجھے ڈگری ملی تو میری والدہ نے مجھے مبارکباد دی۔

انہوں نے کہا کہماحولیاتی تبدیلی آنے والی نسلوں کے لیے بڑا خطرہ ہے، گلیشیئر پگھلنے سے خطرناک سیلاب کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جب کہ ایسے خطرات سے نمٹنے کے لیے پاکستان تیار ہے نہ دنیا۔

چیئرمین پیپلزپارٹی نے مشورہ دیا کہ میرے خیال میں موسمیاتی تبدیلی سے بچاؤ کے لیے پورا پی ایس ڈی پی لگانا پڑے گا، نیا پی ایس ڈی پی تیارکرنا چاہیے جو آئندہ نسلوں کے لیے ہو جب کہ ترقیاتی بجٹ بنانے والے نوجوانوں کے مستقبل کا نہیں سوچتے۔

بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ آبپاشی کا نظام بنا رہے ہیں تو پانی کے موجودہ حالات کا سوچیں، ہمیں آنے والے وقت کے لیے تیاری کرنا ہوگی جب کہ ہمیں پاکستان میں توانائی کا بندوبست کرنا ہے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا ہم پرانہ طریقہ کار اپناتے رہیں گے؟، مہنگی قیمت میں باہر سے بجلی منگوائی جاتی ہے۔ چھ، سات نئی نہریں بنانے سے پہلے مستقبل کا سوچیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ جامشورو، حیدرآباد اور لاڑکانہ میں لوڈشیڈنگ ختم نہیں ہوئی، ماضی میں کسی نہ کسی بہانے یوتھ کو خاموش کرنے کی کوشش کی گئی، سینسرکرنے کی آج بھی کوشش ہورہی ہے اور یہ ثبوت ہے آپ کے پاس کتنی طاقت ہے۔

چیئرمین پیپلزپارٹی کا کہنا ہے کہ وہ ڈرتے ہیں آپ اجتماعی طور پر سوشل میڈیا پر آواز بلند نہ کریں جب کہ آج کی دنیا میں جدید انفرا اسٹرکچر موجود ہے جو ہمارا وائرلیس انٹرنیٹ ہے۔

بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ ہم نے ڈیجیٹل بل آف رائٹس کے لیے آواز اٹھانی ہیں، انٹرنیٹ سلو کیا جائے تو بابوؤں کو فرق نہیں پڑتا نقصان نوجوانوں کا ہوگا۔ اسلام آباد میں بزرگوں، بابوؤں اور سیاستدانوں کو سمجھ نہیں آتا۔