آئی سی سی کو معاہدے کے مطابق 90 دن پہلے چیمپئینز ٹرافی کا شیڈول جاری کردینا ہے ورنہ براڈکاسٹرز معاہدے کی خلاف ورزی پر کٹوتی کرسکتے ہیں۔ اسٹار اسپورٹس جس کے پاس اگلے دو سال آئ سی سی کے براڈکاسٹ رائٹس ہیں اس نے بھی آئ سی سی کو نوٹس دے دیا ہے کہ شڈول جلد جاری کیا جائے۔
آئ سی سی کی سب سے بڑی مشکل انڈیا سے 80 فیصد آمدنی کو برقرار رکھنا ہے جو اسے انڈین کمپنیز سے اسپانسر شپ اور براڈکاسٹ رائٹس کی مد میں ملتی ہے۔
انڈیا کے انکار کے بعد پاکستان کے سخت موقف نے آئ سی سی ایک بند گلی میں پہنچ گئ ہے۔ اگر انڈیا اور پاکستان اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹتے ہیں تو آئ سی سی کے لیے آخری راستہ چیمپئینز ٹرافی کا التوا ہوگا۔ جس کی صورت میں پاکستان میزبان اور اسٹار اسپورٹس براڈکاسٹر کی حیثیت سے مالی تاوان طلب کرسکتے ہیں۔ نیز آئ سی سی کے اپنے مستقبل کے پراجیکٹ بھی متاثر ہوسکتے ہیں
آئ سی سی 2009 کے ورلڈکپ میں انگلینڈ کی جانب سے زمبابوے کی ٹیم کو ویزوں کے اجرا نہ کیے جانے پر زمبابوے کی جگہ اسکاٹ لینڈ کو شامل کرچکی ہے اس وقت زمبابوے نے سیاسی مسائل پر ایونٹ تباہ ہونے کے بجائے خود کو علیحدہ کرلیا تھا۔ اگر آج انڈیا کو پاکستان جانے پر مسائل ہیں تو انڈیا خود رضاکارانہ طور پر الگ کرکے ایونٹ کو بچا سکتا ہے۔ لیکن انڈیا کا مقصد کچھ اور ہے۔
آئ سی سی نے 2002 کے ورلڈکپ میں انگلینڈ کے زمبابوے نہ جانے پر پوائنٹس منہا کرلیے تھے اور دنیا کو پیغام دیا تھا کہ اگر آئ سی سی کے شیڈول کی پیروی نہ کی تو سخت سزا ہوسکتی ہے۔ کیا آئ سی سی وہی پیمانہ آج بھی دوہرا سکتی ہے ؟
آئ سی سی کو یہ بھی اندازہ ہے کہ چیمپئینز ٹرافی کے نہ ہونے سے 300 ملین ڈالر کا نقصان ہوسکتا ہے جو ابتدائ آمدنی ہے۔ لیکن اس میں آخری تک اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ کچھ سیگمینٹ ابھی فروخت ہونا ہیں
دوسری طرف چیمپئینز ٹرافی اگر پاکستان سے باہر منعقد ہوتی ہے تو پی سی بی کو 65 ملین ڈالر کا نقصان ہوسکتا ہے جبکہ اس میں مقامی فروخت شامل نہیں ہے۔ پی سی بی اس ایونٹ سے 80 ملین ڈالر کی توقع کررہا ہے لیکن پی سی بی کے لیے سب سے زیادہ پریشان کن بات ماضی میں اس کا مصالحانہ اور لچک دار رویہ ہے۔ جب 2011 کے ورلڈکپ کی میزبانی کے مشترکہ حقوق کے باوجود پاکستان میں میچز نہیں ہوئے اور پی سی بی ایک خطیر رقم لیکر پییچھے ہٹ گیا۔ اسی طرح ایشیا کپ میں ہائیبرڈ ماڈل کو قبول کرکے بھی پی سی بی نے خود کو کمزور ثابت کردیا تھا۔ اس وقت بھی چئیرمین ذکا اشرف نے رقم کے بدلے خود کو نیچے گرالیا تھا۔
کیا چیمپئینز ٹرافی اپنے شیڈول کے مطابق ہوسکے گی اور کون اپنے موقف سے پیچھے ہٹ جائے گا۔ یہ اگلے چند دن میں واضح ہوجائے گا۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ پی سی بی کے ماضی کے موقف نے اس کی پوزیشن کمزور کردی ہے اور آئ سی سی کو یقین ہے کہ زیادہ رقم کی پیشکش پر پی سی بی ہائیبرڈ ماڈل کو قبول کرلے گا۔
شاید آئی سی سی کچھ ایسا شیڈول بنائے جس سے دونوں ٹیمیں صرف فائنل میں آپس میں ٹکرائیں اور فائنل دبئ یا ساؤتھ افریقہ میں کھیلا جائے۔ اگر ایسا ماڈل قبول کرلیا گیا تو پی سی بی ایک بار پھر خود کو قابل فروخت ثابت کردے گا۔ جس کی گردان اس وقت انڈین میڈیا کررہا ہے۔ انڈین میڈیا کافی عرصہ سے چیمپئینز ٹرافی کو ہائیبرڈ ماڈل کہہ رہا ہے۔ اور ذرایع کے مطابق آئی سی سی نے بھی دو بجٹ بنائے تھے۔ اگر ہائیبرڈ ماڈل ہوا تو اخراجات زیادہ ہونگے